آج علی الصبح میں ایک بلّی کی میاؤں سے اٹھ گیا جو میرے بستر کے پاس موجود مجھے چاٹ رہی تھی، اور اس میں ایک عجیب اصرار تھا، لہذا اس کی اس بات نے مجھے شبہ میں ڈال دیا اور میں اس کے لئے فکرمند ہو گيا، میں نے خود سے کہا: شاید اس کو بھوک لگی ہے، تو میں بستر سے اٹھ کر اس کا کھانا لے آيا لیکن اس نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں الٹا منہ پھیر لیا، تو میں نے کہا: شاید یہ پیاسی ہے لہذا میں اس کو پانی کی طرف لے گیا لیکن وہ اس سے بھی خوش نہ ہوئی، بلکہ میری طرف ٹک ٹکی باندھ کر دیکھنے لگی جس سے صاف پتا چلتا تھا کہ یہ از حد محزون ہے، اور اس منظر نے مجھے ایسا متاثر کیا کہ میں سوچنے لگا کاش میں حضرت سلیمان (ع) ہوتا تو اس جانور کی زبان سمجھ کر اس کی ضرورت جان کر اس کے غم کو کافور کر دیتا۔ کمرے کا دروازہ مقفّل تھا اور میں نے دیکھا کہ وہ مسلسل اسی کی طرف دیکھے جا رہی ہے اور جب بھی میں اس دروازے کی طرف بڑھتا ہوں مجھ سے چمٹی جا رہی ہے، لہذا میں نے اس کی درپیش پریشانی کو درک کر لیا اور سمجھ گيا کہ وہ چاہتی ہے کہ میں اس کے لئے دروازہ کھول دوں۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا تو جیسے ہی اس نے فضا میں آسمان کی طرف نگاہ کی، اس کا غم و اندوہ خوشی و رشک میں تبدیل ہو گیا اور اس نے اپنی راہ لی۔ میں اپنے بستر پر واپس آيا اور اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں ڈال کر اس بلی کے مسئلہ بابت غور و خوض شروع کر دیا تو مجھے اس کی حرکت پر تعجّب ہوا اور خود سے کہنے لگا: کاش مجھے پتا چل جائے کہ کیا یہ بلّی بھی آزادی کا مطلب سمجھتی ہے، کہ اس کے مفقود ہونے سے غمگین اور ملنے پر پھولے نہیں سماتی؟! بالکل! یہ آزادی کے حقیقی معنی سمجھتی ہے، اور اس کے ہم و غم کی وجہ کھانا یا پانی نہ ملنا نہیں بلکہ آزادی تھی، اور اس کے اس تضرع و زاری، آس، چمٹنے اور اصرار کے پیچھے یہی جذبۂ آزادی کارفرما تھا۔ | Entry #25685 — Discuss 1 — Variant: Not specifiednone
|